اکتوبر 2005ءکے قیامت خیز زلزلہ کے متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی کیلئے ایرا و سیرا نے یونین کونسل کی سطح پر سرکاری ملازمین پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی تھیں جو آرمی کی معاونت سے متاثرہ فیملیز کو معاوضہ و ڈیتھ کلیم جاری کرتی تھیں۔ راقم بھی ایک ایسی ٹیم کا چیئرمین مقرر ہوا۔ مجھے جب چیئرمین مقرر کیا گیا تو میں نے اپنے دل میں اپنے اللہ سے یہ عہد کیا کہ جب تک مجھے اس ذمہ داری کیلئے چنا گیا ہے میری نہ کوئی برادری ہے نہ کوئی پارٹی ہے نہ کوئی پسند نا پسند ہے۔ الحمدللہ مجھے میرے اللہ نے سرخرو کیا۔ دوران ڈیوٹی میرے ساتھ ایسی انہونی باتیں ہوئیں جن کا ظاہر کرنا ایمان میں تقویت کا باعث ہوگا۔ اس ذکر کا مقصد پرہیز گاری یا خودنمائی نہیں۔
ڈی سی آفس مظفرآباد سے ابتدائی طور پر مجھے 50 لاکھ روپے نقد اور کم و بیش 30 لاکھ کے ڈیتھ کلیم چیک برائے تقسیم ملے۔ میں یہ رقم لیکر یونین کونسل کٹیکر کے مرکزی مقام راحیکوٹ پہنچا وہاں کیمپ لگا کر آرمی والوں کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق معاوضہ جات کی تقسیم و ڈیتھ کلیم چیک تقسیم شروع کی۔ اسی عرصہ میں ایک دن رقم سے 50 ہزار روپے کم ہوگئے میں نے جب اپنی ٹیم کے دیگر اراکین و معززین علاقہ سے پوچھا کہ مبلغ پچاس ہزار کیونکر کم ہوگئے ہیں۔ 25 ہزار متاثرہ فیملی کے حساب سے دو فیملیز کی رقم کم ہوئی۔ جب تلاش بسیار کے باوجود 50 ہزار روپے دستیاب نہ ہوئے تو میرا خیال اپنے پروردگار کی جانب گیا کہ میں یہ کام اپنا قومی فریضہ سمجھ کررہا ہوں۔ میری ذاتی کوئی غرض نہیں پھر یہ 50 ہزار کم ہوئے یہ تو مجھے اپنے پاس سے بھرنے ہونگے کیونکر اتنی رقم مہیا کرونگا۔ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ وہاں موجود ایک مقرر نے اپنی جیب سے مبلغ 50 ہزار نکال کردیا اور کہا کہ یہ رقم اس نے احتیاطاً اپنے ایک دو عزیزوں کیلئے رکھی تھی۔ حالانکہ ایسا نہ تھا۔ بس یہ میرے مولا کا کرم تھا کہ وہ چرائی ہوئی رقم واپس کرنے پر مجبور ہوا۔
پہلی قسط کی تقسیم کے بعد میں دوبارہ ڈی سی آفس مظفرآباد گیا تاکہ مزید رقم چیک لاکر فہرست کے مطابق تقسیم کروں۔ مظفرآباد ڈی سی آفس سے 25 لاکھ روپے نقد (کیش) اور تقریباً 15 لاکھ کے ڈیتھ کلیم چیک لیکر جو میں ایک کپڑے کی تھیلی میں پیک کرکے اپنے موٹرسائیکل کے پیچھے باندھ کر مظفرآباد نڑول میں اپنے حقیقی چچا راجہ ممتاز خان ریٹائر AVC نیشنل بینک کے گھر روانہ ہوگیا جب میں چچا جان کے گھر کے پاس پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ موٹرسائیکل سے وہ تھیلا غائب ہے جس میں 25 لاکھ روپے نقد اور 15 لاکھ چیک تھے۔ اب میں اسی راستے سے واپس ڈی سی آفس کی جانب ہوا اور راستہ میں جگہ جگہ موٹرسائیکل کھڑی کرکے بازار میں دکانداروں سے دیگر ہجوم سے پوچھتا رہا کہ آپ نے روڈ پر گرا ہوا کوئی تھیلا تو نہیں دیکھا ہر کسی نے انکار کیا۔ ایک لمحے کیلئے اس طرح لگا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ اتنی بڑی رقم کی گمشدگی نے مجھے حواس باختہ کردیا۔ میں جب تلاش بسیار سے مکمل مایوس ہوگیا تو میں نے ہجوم سے ہٹ کر کھڑے ہوکر اپنے رب سے دعا کی کہ اے اللہ اگر میں نے زندگی میں کوئی ایسا کام کیا ہو جو تجھے پسند ہو تو مجھ پر رحم کر۔ یہ دعا مانگ کر میں اسی راستے پر ایک بار پھر موٹرسائیکل لے کر نکل گیا اور راستے میں لڑکوں کی ٹولی کے پاس رکا ان سے پوچھا کہ آپ نے اس رنگ کا کوئی تھیلا تو نہیں دیکھا۔ ایک لڑکے نے کہا ہاں دیکھا ہے کہا کہ ابھی 30 منٹ پہلے ایک لڑکا وہ تھیلا لیکر نیچے خیمہ بستی میں گیا ہے میں اس بچے کی نشاندہی پر ساتھ لگی خیمہ بستی میں گیا اور متعلقہ خیمہ کے باہر کھڑا ہوکر آواز دینے لگا۔ اندر ایک خاتون موجود تھی۔ میں نے اسے کہا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ایک بچہ جو تھیلا لیکر آیا ہے مجھے دے دیں۔ وہ میرا ہے۔ تیس سیکنڈ تک انتظار کے بعد میں نے دوبارہ کہا تو خاتون نے تھیلا مجھے دیدیا۔ تھیلا دیکھ کر بے اختیار میری آنکھوں سے تشکر کے آنسو آگئے۔ سبحان اللہ سچے دل سے مانگی ہوئی دعا رد نہیں گئی۔ میری امانت مجھے مل گئی ۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 836
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں